by Abdul Aziz Khan Bhopali
ماضی کے اوراق پلٹتے ہوۓ جب اپنی زندگی پر نظر ڈالتا ہوں تو گھر کے باہر جس فرو نے سب سے زیادہ اثر ڈالا وہ سید مودودی ہیں۔ سید صاحب سے تعارف ان کی کتابوں کے ذریعے ہوا۔ ان کی سلیس اردو، انداز بیان مضمون پر گرفت ، قاری سے خطاب ، ذخیرہ مواد اور زندگی کے انتہائی سنجیدہ مسائل پر روانی سے ایسے اسیر ہوئے کہ آج تک بار بار پڑھنے کے باوجود ان کتابوں کی چاشنی اور لذت ختم نہیں ہوتی اور ایسا لگتا ہے اکیسویں صدی میں ان کی تحریر اور کتابوں کی اہمیت اپنے موضوع کے اعتبار سے بڑھتی چلی جاتی ہے۔ علم دوست اور قدرشناس ذیشان عثمانی صاحب نے مولانا مودودی پر لکھے جانے والے منظوم کلام کو کتابی شکل میں لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یقینا میکام اہم ہے اور مولانا کی زندگی میں ان کی علمی اور سیاسی کاموں پر اہل علم نے جس طرح نثر اور نظم میں مولانا کوخراج تحسین پیش کیا ہے اس کا جمع کرنا اور کتابی شکل میں لانا ایک قابل ستائش کام ہے۔
Rs: 470