by Zeeshan ul Hassan Usmani
ہمارے والدین، ہمارا گھر، ہمارے رشتے دار، سکول و کالج اور مدارس ہمیں ایک آئیڈیل انسان بنا نا چاہتے ہیں۔ یہ سب لوگ چاہتے ہیں کہ ہم ایک رول ماڈل کے طور پر پروان چڑھیں اور ایک “عظیم” آدمی کی زندگی گزاریں۔ کامیابی، خوشی اور مسرتوں سے بھرپور۔ یہ ہمیں صلہ رحمی، سچ بولنا، بزرگوں کا ادب اور ہمیشہ دوسروں کی عزت کرنا سکھاتے ہیں۔ اپنے طور پر یہ ہمیں پرفیکٹ بنانا کر اس معاشرے میں زندہ رہنے کے لیے چھوڑ دیتے ہیں جو کسی طرح سے بھی پرفیکٹ نہیں ہے۔ کوئی طریقہ مناسب نہیں،کوئی چلن انسانوں والا نہیں اور کوئی رشتہ بغیر غرض کے نہیں۔ ہم نے ابھی اپنی پریکٹیکل زندگی شروع کی ہی ہوتی ہے کہ ہمیں لوگوں کے جھوٹ، دشمنی اور کم ظرفی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہم اس کے لئے تیار ہی نہیں ہوتے نہ ہی کسی کلاس میں یہ سب کچھ سکھایا جاتا ہے کے دھوکہ کیسے کھایا جاتا ہے، ظلم کیسے برداشت کریں ، جھوٹ اور مکّاری کا جواب کیا ہو، بد دعا کیسے مانگیں اور عادی ظالموں کے معاشرے میں زندگی کی بقا کیسے ممکن ہو؟ ہم روز اپنی کامیابی کی زکوۃ نکالتے ہیں، لوگوں کا جھوٹ ، حسد اور ظلم برداشت کرتے ہیں، اس معاشرے میں جیتے ہیں جہاں سچ بولنا ، کتاب پڑھنا، وفا شعاری، اخلاص اور ادب حرام ٹہرا. برائیوں سے مسلسل لڑنے کا ایک نقصان یہ بھی ہوتا ہے کہ بندہ خود بھی برا بن جاتا ہے۔ کامیابی ملی تو انسان نہ رہا۔ انسانیت کو بچایا تو کامیابی کوسوں دور بھاگ گئی۔ ہم اپنی دینی و اخلاقی اقدار کو بچا کر کس طرح زندگی گزاریں؟ کیسے نگیٹیو لوگوں اور وسوسوں کا مقابلہ کریں؟ کیسے اس شرارتی دنیا میں ہنسی خوشی زندہ رہ سکیں؟ کیسے آگے بڑھیں اور کیسے دوسروں کی مدد کر سکیں؟ یہ کتاب آپ کو یہ سب کچھ سوچنے پر مجبور کرے گی اور ایسی باتیں سکھائے گی کہ آپ اس دنیا کا ہمت و محبت سے مقابلہ کر سکیں۔ وہ کسوٹی نظر آئے گی جس پر انسان کو پرکھا جا سکے اور آپ ان تمام حالات کے باوجود مرنے پہلے زندہ رہ سکیں. اپنے من کا آئینہ صاف ہو سکے اور آپ دیکھ سکیں کے آپ کون ہیں۔ زندگی کے اس “مسنگ سمسٹر” میں آپ کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ تو اکیلا ہے بند ہےکمرہ
Rs: 1200